Duration 2:50

آج فارن آفس کی رکن صائمہ سلیم اس ویڈیوکی خاص بات یہ تھی کہ صائمہ سلیم آنکھوں کی نعمت سے محروم تھیں Maroc

169 watched
0
1
Published 26 Sep 2021

آج ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ھوا۔ جس میں پاکستان فارن آفس کی رکن صائمہ سلیم اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستانی موقف پیش کر رھی تھیں۔ اس ویڈیو کی خاص بات یہ تھی کہ صائمہ سلیم آنکھوں کی نعمت سے محروم تھیں اور اس کے باوجود انگلیاں پھیر کر سامنے موجود ورق کے الفاظ بخوبی پڑھ رہیں تھیں۔ اگر آپ اس طرف غور نہ کریں تو شاید آپ کو معلوم بھی نا ھوتا کہ وہ آنکھوں سے معذور ھیں اور پیپر پر ھاتھ پھیر کر تقریر پڑھ رھی ھیں۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد تجسّس ھوا۔۔۔۔ کہ نابینا کس طرح پیپر پر انگلیاں پھیرتے ھوئے اتنی روانی سے تقریر کر سکتے ھیں۔ تو۔۔۔ جو معلومات ملیں وہ آپ دوستوں کیساتھ شیُر کر رھا ھوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بریل لینگوئج: بریل الفاظ کا وہ بورڈ ہے جسے چھو کر بصارت سے محروم افراد لکھتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں۔ علم ہی وہ شمع ہے جس کی روشنی ایک مہذب معاشرے کی ضمانت ہے مگر جن آنکھوں میں نور ہی نہیں ان کو روشنی سے کیا مطلب، اسی لیے تو نابینا افراد کے لیے بریل کے فریم کو ہی علم کی شمع کا درجہ دیا جاتا ہے۔ پلاسٹک کا بریل فریم دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کی بیرونی سطح پر چھ چھ پوائنٹس پر مبنی سیل ہوتے ہیں جبکہ اندرونی سطح پر دبیز کاغذ کا پرت ہوتا ہے۔ بریل ( Braille ) کا ہر پوائنٹ مختلف الفاظ کی نشاندہی کرتا ہے جس کو سٹائلس نامی پن کی مدد سے دبانے کی صورت میں کاغذ پر الفاظ ابھر آتے ہیں۔ حرف شناسی کا یہ طریقہ پیرس کے ایک مدرس (school master) میں ایک نابینا لوئس بریل نے 1834ءمیں ایجاد کیا۔یہ ایک لینگوئج ہے ۔ لوئس بریل وہ شخص تھا جس نے نابینا افراد کی تعلیم کے لئے ایک خاص اور آسان زبان ” بریل لینگوئج“ ایجاد کی۔بریل (لینگوئج) کا عالمی دن ہر سال4 جنوری کو پوری دنیا میں لوئس بریل کی سالگرہ کے موقع پر منایا جاتا ہے ۔بریل کا عالمی دن پاکستان میں ایک غیر معروف دن ہے ،بہت سے لوگ بریل کے نام سے ہی واقف نہیں ہیں ۔ لوئس بریل 4 جنوری 1809ءکو فرانس میں پیدا ہوا ۔3 سال کی عمر میں ایک حادثے میں اس کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی ۔ لوئس بریل کی تعلیم حاصل کرنے کی شدید خواہش تھی ۔دیکھا گیا ہے کہ شدید خواہش اور غور و فکر کے ساتھ جدوجہد کی جائے تو اللہ راستے نکال دیتا ہے ۔راستے کھول دیتا ہے ۔بریل پڑھنا چاہتا تھا اس لیے فرانس میں ایک ادارے جو کہ نابینا بچوں کو تعلیم دینے کے لیے بنایا گیا تھا ’ ’ رائل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ یوتھ“ میں داخلہ لے لیا ۔اس ادارے کا روح رواں کا نام ویلنٹائن ہووے تھا، وہ خود تو نابینا نہیں تھا ،لیکن اس نے اپنی زندگی نابینا افرادا ور بچوں کے لیے وقف کی ہوئی تھی ۔ہووے نے نابینا افراد کو تعلیم دینے کے لیے ایک سسٹم بنایا ہوا تھا، جو کہ کافی مشکل تھا۔ وہاں لوئس بریل نے تعلیم حاصل کی اور اس سوچ میں رہا کہ کوئی اور ایسا آسان نظام ہونا چاہیے، جس کے تحت نابینا افراد پڑھنے کے ساتھ ساتھ آسانی سے لکھ بھی سکیں۔لوئس بریل اپنا فارغ وقت اس کام پر خرچ کیا کرتا تھا، ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اندھے افراد کو آسان طریقے سے علم کے زیور سے آ راستہ کرانے کے لیے آسان ترین طریقہ کیا ہو ایجاد کرنا تھا ۔ وہ تجربے کرتا رہا ،جد وجہد کرتا رہا ۔لوئس بریل نے ایک کاغذ پر ابھر ے ہوئے نقطوں کی شکل میں ایک علامتی سیٹ تیار کیا، ان ابھرے ہوئے نقطوں کو انگلیوں کی پوٹوں کی مدد سے آسانی سے محسوس کیا جا سکتا تھا۔اس نے حروف تہجی، اوقاف کے خطوط اور ریاضی علامات کے علاوہ میں 63 علامات ایجاد کیں ۔یوں اس نے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطوں سے ایک مکمل زبان تیار کردی۔خاص نقطوں کی مدد سے تیار ہونے والی یہ زبان مکمل ابلاغ کی حیثیت رکھتی تھی۔آج بریل لینگوئج نابینا طالب علموں کی تعلیم کا طریقہ آفاقی ہے۔ 1949 ءکے بعد سے یہ طریقہ دنیا کے تمام حصوں میں یونیسکو کی طرف سے رائج ے اور ترقی کر رہا ہے ۔لوئس بریل ۔1852ءکو انتقال کر گیا وہ نابینا اور غریب تھا اس پر بہت کم لکھا گیا ۔دنیا میں اس دن نابینا طالب علموں کے لیے تعلیمی و تفریحی ورکشاپس،واک،مقابلہ جات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ بریل زبان کے بارے میں آگاہی فراہم کی جاتی ہے ۔ان ممالک میں نابینا افراد کی تعلیم و تربیت کے لئے اداروں کا خاص انتظام موجود ہے ۔تاکہ نابینا افراد کو بھی معاشرے کا کار آمد شہری بنایا جاسکے۔ . . . . . . . . . . . . . . .ڈبلیوایم این نیوز چینل

Category

Show more

Comments - 4